مرشد: چلو آج تم ہمیں کوئی درس دو۔ یا مرید بتائو محبت کیا ہوتی ہے؟
مرید: یا حضرت میں کیا اور میری مجال کیا؟ آپ ہی کچھ ارشاد فرمائیں۔
مرشد: چلو ہم تم سے سوال کرتے ہیں تم جواب دو۔ بتائو محبت کس سے کرنی چاہئیے؟
مرید: مرشد میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ محبت کونسا بندہ سوچ سمجھ کے کرتا ہے؟
مرشد: کہہ سکتے ہو یا مرید تم۔ بلکہ تمہی کہہ سکتے ہو۔ کوئی کہتا ہے اور پھر
بھی کچھ نہی کہتا۔ کوئی کچھ بھی نہی کہتا اور کہہ جاتا ہے۔ ہم تو کہتے ہیں ہیں اصل
کہنا ہی یہی ہوا کے کچھ نہ کہہ کے کہو۔ کہہ کے کہنا تو کچھ نہ ہوا ناں؟
مرید: آپکی باتیں آپ ہی سمجھیں مرشد۔
مرشد:(مسکراتے ہوئے) اوئے پاغلا سب سمجھتا ہے تُو۔سب سمجھتا ہے۔ اچھا چل یہ
بتا محبت کونسی تاثیر رکھتی ہے؟ آگ پانی یا برف؟
مرید: میں نہیں بتاتا کچھ بھی مرشد۔ میں کوئی بھی بات کروں آپ ایسے ہنستے ہیں
جیسے میں پاگل ہوں۔ سو مجھے نہیں پتہ آپکے کسی سوال کا جواب۔
مرشد: او یار تُو ناراض نہ ہوا کر
شاباش۔ بیوقوفے کتنی بار بتایا ہے پاگل وہ ہوتا ہے جو کسی "گل" کو
"پا" لیتا ہے۔ کسی بات کو سمجھ جاتا ہے۔ کسی بھید کو پالیتا ہے۔ چل بتا
اب محبت کی تاثیر۔
مرید: مشکل سوال ہے مرشد۔ مجھے واقعی اسکا جواب نہیں معلوم۔ مجھے تو لگتا ہے
تینوں کی ہی تاثیر رکھتی ہے۔
پہلے ٹھنڈا میٹھا پانی بنتی ہے۔ گرم دوپہروں میں پھوار بن کے برستی ہے۔ دریا
بن کے بندے کو اپنے ساتھ بہا کے لے جاتی ہے۔ اندر باہر سے بھگو دیتی ہے۔
پھر برف بن کے ستم ڈھانا شروع کرتی ہے۔ جیسے برف کو زیادہ دیر ہاتھوں میں پکڑے
رکھو تو ہاتھ جلنے لگتے ہیں۔ بظاہر زخم نہیں لگتا پر اندر جھلس جاتا ہے بندے کا۔ یہ
بھی بندے کے ظاہر کو سلامت رہنے دیتی ہے اندر کو جلا دیتی ہے۔
اور جن شیدائیوں کے سر سے پھر بھی محبت کا بھوت نہیں اُترتا اُنکو آگ بن کے
کھا جاتی ہے پھر یہ۔ نہ ظاہر چھوڑتی ہے نہ باطن۔ سب کچھ ساڑ کے سوا (جلا کر راکھ)
کر دیتی ہے۔ ۔
مرشد: (لمبی سانس کھنچ کر) چل اُٹھ جا کے پودوں پہ پانی چھڑک آ۔ وہ بھی تیری
طرح جل رہے ہیں بچارے دھوپ میں۔