برزخ


ساحل کا سکوت کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ جب کوئی گہرا سمندر اچانک سے جمود اختیار کر لے تو کوئی بڑا طوفان آنے والا ہوتا ہے۔ سکوت تو اس وقت بھی ایسا ہی ہوتا ہے جب طوفان آکر چلا جاتا ہے۔ ایک جامد سنّاٹا ویران ساحل پر ڈیرے ڈال لیتا ہے۔ جب طوفان آنے والا تھا سکوت تب بھی تھا، جب آکر چلا گیا تب بھی تہی داماں حیران آنکھوں میں فقط اِک ٹھرا ہوا سکوت ہی ہے۔ تو پھر طوفاں کیا ہوئے؟؟ جس کے آنے سے، جانے سے گہرے پانیوں کا سکوت نہ ٹوٹ پائے اسکی حیثیت ہی کیا ہوئی بھلا؟ جو زندگی کی لہروں کو ارتعاش دے، مگر بھنور بننے سے پہلے ہی چلا جائے۔ ۔ ۔
یوں تو تیز ہوا کے جھونکے بھی لہروں کو ارتعاش دیتے ہیں مگر جھونکے ٹھہرے پانیوں کی سطح پر لہریں تو بنا سکتے ہیں ٹھہرے پانیوں کا جمود نہیں توڑ سکتے۔ وہ جو سیماب طبیعت ہوں کسی سکوت کا نہ ساتھ دے سکتے ہیں نہ اسکا حصہ بن سکتے ہیں۔ انہیں تو بس لمحہ بھر کے لیے ہلچل مچانا ہوتی ہے اور جب حرکت کی، زندگی کی آرزو بعدار ہونے لگے تو کسی اور قلزم کی تقدیر کا مذاق اُڑانے چل دینا ہوتا ہے۔ 


ہماری زندگیاں بعض نکتوں پر آکر اسی طرح ساکت ہوجاتی ہیں۔ بعض اوقات اتنی بڑی خوشی ملتی ہے کہ اس سے آگے پانے کے لیے کچھ نہیں رہتا۔ پاوْں تب بھی تھکنے لگتے ہیں، سفر رُکنے لگتا ہے۔ سب کچھ پالینے کے بعد کچھ اور بچتا ہی نہیں پانے کو۔ زندگی جمود کا شکار ہوجاتی ہے۔ ہر منزل کے حصول کے بعد برف کے پہاڑوں میں حنوط کی ہوئی زندگی بظاہرہر طرح سے مکمل نظر آتی ہے مگر اسکے اندر کا سکوت، سنّاٹا اور جمود کسی کو اسکے قریب نہیں آنے دیتا۔ منجمد شہروں میں جانے والے اگر زیادہ دیر وہاں رُکیں تو خود بھی منجمد ہونے لگتے ہیں۔ اسی لیے کوئی برف کی چٹانوں میں گھرے اس حسین سِحر کے اندر داخل نہیں ہوتا۔ سب اسے دیکھتے ہیں، سراہتے ہیں مگر کوئی ااسکے اندر کے سکوت کو دعکھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ ایسے میں کبھی سورج کی کوئی آوارہ کرن ادھر آتی ہے تو خاموش منجمد شہر کا سکوت اسے عجیب لگتا ہے۔ وہ اسکی حقیقت پانا چاہتی ہے اور یوں صدیوں بعد کسی کرن کے اندر داخل ہونے سے سکوت ٹوٹنے لگتا ہے۔ اسکی آواز کا ارتعاش شہر میں گونجنے لگتا ہے۔ اسکی پوروں کی نرم حدّت سے برف کے محلوں میں دڑاریں پڑنے لگتی ہیں اور پھر اس جمود کا راز عیاں ہوجاتا ہے۔ شہر کی بنیادوں میں مدفون ایک ایک لمحہ لوگوں کے سامنے آجاتا ہے اور لوگ اس خوبصورت شہر پر ہنسنے لگتے ہیں۔
شہر ک سارے بھید پا لینے کے بعد کرن کا تجسّس بھی ختم ہوجاتا ہے اور وہ کسی نئی دنیا کو دریافت کرنے چل دیتی ہے۔ ٹوٹتا شہر پکارتا رہ جاتا ہے، لوگ ہنستے رہتے ہیں۔ زندگی اذیت بن جاتی ہے۔ ایسی حالت میں کہ جب آپکی منجمد خاموشی ٹوٹنے لگے۔ اندر ہی اندر برف کا کوئی محل ٹوٹنے لگے اور آپ اپنی ذات کے عیاں ہوجانے کے خوف سے اسے بچاتے پھرو۔ اور پھر جب اسی سکوتِ کرب سے نکلنے کی خواہش دل میں ابھرنے لگے، دل دھوپ کی تمازت کا مزہ چکھنے کو مچلنے لگے اور آپ اپنے ہاتھوں سے اپنی ذات کے گرد لگے سارے سائن بورڈز اُتار کر پھینکنے لگو تو سورج کی کرن جاچکی ہو۔ جب اپنی ہی ذات کے ریزے ہاتھ میں لیے سمجھ میں نہ آئے کہ ان شکستہ دیواروں کو اور گِرادو یا اِنہی کے ملنے پہ بچے ہوئے سنگ سمیٹ کر دبارہ وہی سرد محل بنادو جِن کو ابھی اپنے ہاتھوں مسمار کیا تھا۔
ہمیں زندگی میں ہر طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ کچھ لوگ ہمیں پگھلا دیتے ہیں اور کچھ لوگ ہمارے اندر اور برف اُتار دیتے ہیں۔ بےحسی کی برف چٹانوں کا حجم اور بڑھا دیتے ہیں۔ دونوں ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ پاتے۔ توڑ پھوڑ تو تب ہوتی ہے جب کوئی راہ دِکھا کر ہاتھ چھڑا لے، گھاٹ پر اُتارے پر سیراب نہ ہونے دے۔
سنّاٹا ہمارے انر ہو تو باہر کے شور سے کان پھٹنے لگتے ہیں۔ اور سکوت اگر باہر کی ہر چیز پر ٹھہر جائے توہمارے اندر کے شور کا ارتعاش وجود میں دراڑیں ڈال دیتا ہے۔

If you'd like to be friends

I love coffee. If you like me, consider buying me a cup of coffee.

My help is available at my website academiccoaching.ml to students applying for education abroad, academic coaching, graduate study applications, legal documents, and visa process.